Urdu
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خرما کے درخت کی ہلکی ہلکی چھاؤں کی ٹھنڈک، صحرائی مسافر کی روح کو تسکین پہنچاتی ہے۔
ایسا شخص کہ جس نے شورہ زار و غیر آباد صحرا میں کئی گھنٹوں تک سفر کیا ہو، اس کے لیےخرما کے چند درخت اور ان کا ہلکا سا سایہ دیکھنا بےانتہا لذت بخش ہے، نارنگی کے پھولوں کی مدہوش کنندہ خوشبو، ایوانوں کے سائے اور نارنگی اور خرما کے درختوں کی آغوش میں فیروزی گنبد کے کیا کہنے۔ اسی وجہ سے مسافر، طبس کو بہشت سمجھتے ہیں اور اسے “صحرا ئی بہشت” کا نام دیتے ہیں۔
لیکن بہشت صرف درختوں کے گھنے سائے اور ندیوں کے گنگناتے نغمے نہیں ہیں! بہشت کی تعریف تو نور سے ہوتی ہے، ایران کے صحرائی بہشت کے سینے میں ایک عظیم نور ہے۔
صحرا کے معزز مہمان، امام زادہ حسین بن موسیٰ کاظمؑ
آپ اس تحریر میں ان کی شان وشوکت سے مربوط خصوصیات کے بارے میں مزید جانیں گے:
۱۔ امام کے بلافصل بیٹے
ایرانی قوم کے دل میں اہل بیتؑ اور ان کے عزیز و اقارب سے عشق کا دیرینہ رشتہ قائم ہے، اسی وجہ سے ایران کے مختلف مقامات پر بہت سے مبارک مقبرے موجود ہیں کہ جو لوگوں کی توجہ کا مرکزہیں۔ ایران میں آٹھ ہزار (8000) سے زیادہ مقبروں میں مدفون افراد ان بزرگ سادات میں سے ہیں کہ جن کا سلسلہ نسب متعدد واسطوں کے ساتھ امام معصومؑ تک جا پہنچتا ہے۔ ان امام زادوں کے مقبرے جو بلافصل ائمہ کی اولاد ہیں، انگشت شمار ہیں اور حسین بن موسی الکاظم علیہ السلام انہی میں سے ایک ہیں کہ جو حضرت امام کاظم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور امام رضا علیہ السلام کے بھائی ہیں۔ ان کی مادرِ گرامی کا شمار حدیث کے راویوں میں ہوتا ہے۔
۲۔امامت و ولایت کےمحافظ
فطری سی بات ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے فرزند مسائل کی معرفت، شناخت اور اسی طرح اخلاقی خصوصیات کے لحاظ سے سب ایک درجے پر فائز نہیں تھے۔
ان میں سے بعض ائمہ کے راستے پر چلتے ہوئے ولایت و امامت کے محافظ تھے، انہوں نے جہادِ تبیینِ ولایت اور حقانیتِ امامت کا دفاع کرنےکی قیمت ادا ہے کہ جس کی تفصیل تاریخ میں درج ہے اور ہم تک پہنچی ہے۔
دوسرے گروہ نے نہ تو مخالفت کی ہے اور نہ ہی ولایت کا دفاع کرنے میں کوئی خاص کام انجام دیا ہے کہ جس کی تفصیل تاریخ میں درج ہوتی۔
بعض دیگر افراد نہ صرف یہ کہ اہل بیتؑ کے راستے پر نہیں تھے بلکہ ان کا رویہ اہل بیتؑ کی سیرت کے برخلاف تھا۔
مندرجہ بالا تین گروہوں کی بنا پر حسین بن موسیٰ کاظمؑ امامت و ولایت کے مقام و مرتبہ اور کردار کی وضاحت کرنے کے میدان میں جہاد کرنے والوں میں سے ہیں، اگرچہ انہوں نےعباسی خلفا کے سخت گھٹن اور شدید کنٹرول کے دور میں زندگی گزاری تھی، لیکن وہ مسلمانوں کو امام جواد علیہ السلام کی شخصیت کا تعارف کرانے اور ان کی امامت و ولایت کے دفاع میں پُرعزم رہے ہیں۔
اس زمانے میں ظلم و استبداد اور خود غرضی اس قدر زیادہ تھی کہ بعض سادات کو محض رسول اللہ ﷺ کے خاندان سے نسبت کے جرم میں شہید کردیا جاتا تھا۔ لہذا شیعہ اماموں کے ساتھ، شیعوں اور اہل بیتؑ کے پیروکاروں کا رابطہ بہت خطرناک تھا۔
دوسری طرف سے یہ ہے کہ چونکہ امام جواد علیہ السلام کم عمری میں درجہ امامت پر فائز ہوئے تھے اور ان سے پہلے کسی چھوٹے بچے کی امامت کی کوئی مثال نہیں ملتی، عام مسلمانوں اور شیعہ اجتماع میں ان کی امامت کے بارے میں بہت سی افواہیں اور شکوک و شبہات بیان ہوئے، یہاں تک کہ امام کے بعض قریبی افراد بھی ان کی نسبت اپنے آپ کو منصبِ امامت پر فائز ہونے کے زیادہ حق دار اور ان سے بالاتر سمجھتے تھے۔
اس ماحول اور معاشرے میں حسین بن موسیٰ کاظمؑ بڑی شجاعت اور صراحت سے امام جواد علیہ السلام کا تعارف کراتے اور بلند مرتبہ امام کی تعظیم و تکریم کے لیے کوشش کرتے رہے۔ اس سلسلے میں کتبِ احادیث میں ایک خوبصورت روایت بطور یادگار موجود ہے: حسین بن موسیٰ کاظمؑ فرماتے ہیں:
میں مدینہ میں امام جواد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا۔ علی بن جعفر(امام صادقؑ کے بیٹے) اور مدینہ کے ایک عرب (قبائلی شخص) بھی وہاں پر حاضر تھے۔ اس عرب شخص نے امام جواد علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا: یہ نوجوان کون ہے؟ میں نے جواب دیا: وہ پیغمبر خداﷺ کے جانشین اور وصی ہیں۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! پیغمبرِ خداؐ کی رحلت تقریباً دوسو(۲۰۰) سال قبل ہو چکی ہے جبکہ یہ تو ابھی نوجوان ہے، یہ کیسے پیغمبر خداﷺ کا جان نشین اور وصی ہو سکتا ہے؟ میں نے جواب میں کہا: یہ معزز شخص حضرت علی بن موسی علیہ السلام کے وصی ہیں اور علیؑ، موسیٰ بن جعفرؑ کے وصی اور موسیؑ، جعفر بن محمدؑ کے وصی اور جعفرؑ، محمد بن علیؑ کے وصی اور محمدؑ، علی بن حسینؑ کے وصی اور علیؑ، حسینؑ کے وصی اور حسینؑ، حسنؑ کے وصی اور حسنؑ، امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ کے وصی ہیں اور علی بن ابی طالب، پیغمبر خداﷺ کے وصی ہیں۔
جب طبیب نے امامؑ کی رگ پر چیرہ (روایتی طب میں فصد کھولنا) لگانا چاہا تو علی بن جعفر کھڑے ہوئے اور کہا: میرے آقا! اجازت دیں کہ وہ پہلے میری رگ پر چیرہ لگائے تاکہ آپ سے پہلے لوہے کی تیزی میرے جسم سے آشنا ہوجائے۔
میں نے عرب شخص سے کہا: تم نے دیکھا! وہ اس کے والد کے چچا ہیں۔ علاج کے بعد امام جواد علیہ السلام جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے؛ علی بن جعفر نے آگے بڑھ کر امامؑ کے جوتے ان کے سامنے رکھے۔[1]
مذکورہ روایت کے مطابق، حسین بن موسیٰ کاظمؑ نے نہایت ادب اور احترام کے ساتھ اصل و نسب کا ذکر کرتے ہوئے امام جواد علیہ السلام کا تعارف ایک عام آدمی سے کروایا جو آپ کو نہیں جانتا تھا اور امام جواد علیہ السلام کی عظیم شخصیت سے مزید واقفیت کے لیے اس شخص کو امام علیہ السلام کے بڑے چچا علی بن جعفر علیہ السلام کے احترام، تواضع اور محبت بھرے رویےکی جانب متوجہ کیا۔
۳۔ دو معصوم اماموں کی تایید
حسین بن موسیٰ کاظمؑ مہربان بھی تھے اور خیرخواہ بھی۔ ایک معتبر روایت کے مطابق ، ابن ابی نصر بزنطی نے امام جواد علیہ السلام سے پوچھا: آپ پر آپ کے چچوں میں سے کون سا چچا سب سے زیادہ مہربان ہے؟ انہوں نے جواب میں اپنے چچا حسین بن موسیٰ کاظمؑ کا تعارف کرایا۔ امام رضاؑ نے کہ جو اس مجلس میں موجود تھے، امام جوادؑ کے قول کی تایید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خدا کی قسم اس نے سچ کہا۔ خدا کی قسم ان کے سب سے زیادہ مہربان اور خیرخواہ چچا حسین ہیں۔
وَقَالَ احْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی نَصْرٍ کُنْتُ عِنْدَ اَلرِّضَا عَلِیِّ بْنِ مُوسِی عَلَیْهِ اَلسَّلاَمُ وَکَانَ کَثِیراً مَا یَقُولُ اسْتَخْرِجْ مِنْهُ الْکَلاَمَ ـ یَعْنِی اباجعفرـ فَقُلْتُ لَهُ یوماً اَیُّ عُمُومَتِکَ أَبَرُّ بِکَ فَقَالَ:اَلْحُسَیْنُ۔
فَقَالَ ابوه ﷺ صَدَقَ وَاللَّهِ هُوَ وَاللَّهِ أبَرُّهُمْ بِهِ وَاخ٘یرُهُمْ لَهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِما جَمِیعاً۔[2]
مذکورہ روایت اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ حسین بن موسیٰ کاظمؑ کو دو معصوم اماموں کی توثیق اور تائید حاصل ہے۔ امام جواد علیہ السلام کے جواب میں جو محبت عیاں ہوئی اور امام رضا علیہ السلام کی عجیب تصدیق کے ساتھ اپنے عروج کو پہنچی کہ جنہوں نے اپنے بھائی کی مہربانی اور خیرخواہی بیان کرنے کے لیے دو مرتبہ قسم کھائی اور صفت تفضیل کا استعمال کیا۔
ایک اور نقطہ نظر سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حسین بن موسیٰ کاظمؑ کی جانب سے ہمدردی اور مہربانی کا اظہار کرنا خاندانی محبت سے بالاتر تھا اور ان کی طرف سے ولایت و امامت کے دفاع اور ائمہ کی تائید کے پیش نظر حسین بن موسی الکاظمؑ کی طرف سے ولایت و امامت کی حمایت میں کی جانے والی کوششوں کا شکریہ ادا کرنا ہے۔
۴۔عالم اور حدیث کے راوی
حسین بن موسیٰ کاظمؑ کو تین ائمہ معصومین علیہم السلام کے حضور سے استفادہ کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور تینوں عظیم اماموں کے شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی عالمہ والدہ اور احمد بن موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے شاگرد بھی تھے کہ جنہوں نے عقیدہ، تاریخ، اخلاق، فقہ اور صحت کے بارے میں معتبر احادیث نقل کی ہیں۔
حسین بن موسی الکاظمؑ کی احادیث کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے والد، بھائی اور والدہ کے علاوہ کسی اور شخص سےکوئی حدیث نقل نہیں کی ہے۔
حسین بن موسیٰ کاظمؑ نے بھی دین کی تبلیغ و ترویج اور ولایت کو کھل کر بیان کرنے کے لیے کچھ طلبا کی تربیت کی ہے کہ جن کے نام بعض احادیث کے سلسلۂ سند میں مذکور ہیں۔
۵۔ حسین بن موسی الکاظمؑ کی احادیث
۴۔۱ تاریخی احادیث
حسین بن موسی الکاظمؑ مشہور روایت اصحابِ عقبہ یا اصحابِ دباب کے راوی ہیں۔ اس حدیث میں پیامبر گرامی اسلام ﷺ کے ناکام قتل کا عجیب وغریب واقعہ بیان کیا گیا ہے اور اس روایت میں پیغمبر اکرمﷺ کے گراں قیمت وجود کی حفاظت میں امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام کے نمایاں کردار کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔[3]
انہوں نے لیلۃ المبیت کی روایت بھی نادر تفصیلات کے ساتھ نقل کی ہے کہ جس رات میں دشمن رسولِ خدا ﷺ کو قتل کرنے کے لیے متحد ہو چکے تھے اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اپنی جان پیش کی تھی۔[4]
حسین بن موسیٰ کاظمؑ امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ جس میں امام علیؑ، رسول خداﷺ، ائمہ ہدی علیہم السلام اور مؤمنینؑ کے حقوق کےبارے میں لوگوں کی ناقدری کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ حسین بن موسیؑ اپنے اجداد سے اور وہ امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
رسول گرامی اسلامﷺ گمنام ہیں۔ قریش، عرب اور عجم پر احسان کرنے کے باوجود ان کے احسان کی قدر نہیں کی گئی۔ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر اس مخلوق پر کس نے احسان کیا ہے؟ ہمارے خاندان کی بھی ناقدری کی گئی۔ انہوں نے ہمارے احسان کی قدر نہیں کی اور نیک مؤمن بھی گمنام ہیں اور ان کا بھی شکریہ ادا نہیں ہوا اور نہ ہی ان کے اچھے اعمال کی قدردانی کی گئی ہے۔[5]
حسین بن موسی بن جعفرؑ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں:
ایک دن میں نے ابو جعفر محمد بن علی رضا علیہ السلام کے ہاتھ میں چاندی کی ایک انگوٹھی دیکھی کہ جو (زیادہ استعمال کی وجہ سے) نازک اور پتلی ہو چکی تھی۔
میں نے کہا: کیا آپ جیسا شخص ایسی انگوٹھی پہنتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: یہ سلیمان بن داؤد کی انگوٹھی ہے۔‘‘[6]
امام رضا علیہ السلام کے چھوٹے بھائی ،حسین بن موسیٰ کاظمؑ نے دو اور روایات بھی نقل کی ہیں کہ جو امام کے علم غیب کی نشاندہی کرتی ہیں:
۔ ہم بنی ہاشم کے جوانوں کی ایک جماعت کے ہمراہ امام رضا علیہ السلام کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ اس وقت جعفر بن عمر علوی فقیرانہ حالت میں ہمارے پاس سے گزرے۔ ہم میں سے بعض نے اسے مضحکہ خیز نظروں سے دیکھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: عنقریب تم دیکھو گے کہ اس کی زندگی بدل جائے گی، اس کے مال و دولت اور خادموں میں اضافہ ہو جائے گا اور اس کا ظاہری حلیہ بھی آراستہ ہوجائے گا۔ ایک مہینہ گزرنے کے بعد وہ مدینہ کے گورنر بنے اور جیسا کہ امام نے فرمایا تھا ،ان کی زندگی بدل گئی اور اس کے بعد جعفر بن عمر علوی کئی بار ہمارے پاس سے بہت گزرے ہیں، ان کے آگے پیچھے بہت سے خادم چلتے تھے۔ ہم کھڑے ہو کران کی تعظیم کرتے اور ان کے لیے دعا کرتے۔[7]
ایک دن جب آسمان پر کوئی بادل نہ تھے، ہم امام رضا علیہ السلام کے ساتھ ان کی ایک مملوکہ زمین کی طرف گئے۔ جب ہم شہر سے باہر پہنچے تو انہوں نے فرمایا: کیا تم نے اپنے ساتھ بارش سے بچنے کے لیے کپڑے اٹھائے ہیں؟ ہم نے کہا: ہمیں بارش سے بچانے والے کپڑوں کی کیا ضرورت ہے جب کہ کوئی بادل ہی نہیں ہیں اور ہم بارش کا احتمال نہیں دیتے۔ انہوں نے فرمایا: لیکن میں نے بارش سے بچنے کے لیے کپڑے ساتھ اٹھائے ہیں اور عنقریب تم بارش میں بھیگ جاؤ گے۔ ہم نے کوئی زیادہ راستہ طے نہیں کیا تھا کہ بادل نمودار ہوئے اور اس قدر بارش ہوئی کہ ہم میں سے ہر ایک صرف اپنے بارے میں سوچ رہا تھا اور ہم سب بھیگ گئے تھے۔[8]
۔ حسین بن موسیٰ کاظمؑ نے امیر المومنین امام علیؑ سے پیغمبر اکرم ﷺ کی محبت اور لوگوں کو ان کے حقوق کا احترام کرنے کی وصیت کے بارے میں بھی دو خوبصورت احادیث نقل کی ہیں:
۱۔ حسین بن موسیٰؑ اپنے والد سے، وہ اپنے اجداد سے اور وہ علی بن ابی طالبؑ سے نقل کرتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے خندق کے دن فرمایا:“اَللَّهُمَّ إِنَّکَ أَخَذ٘تَ مِنِّی عُبَی٘دَهَ بنَ الحَارِثِ یَومَ بَدَر، و حَم٘زَهَ ب٘نَ عَب٘دِ ال٘مُطَّلَّبِ یَومَ أُحَدٍ، وَ هَذَا عَلِیٌّ فَلَا تَدَع٘نِی فَر٘داً وَ أَن٘تَ خَی٘رُ ال٘وَارِثِی٘نَ۔”[9]
اے اللہ تو نے بدرکے دن عبیدہ بن حارث کو اور احد کے دن حمزہ بن عبدالمطلب کو مجھ سے لے لیا ہے اور یہ علی ہیں، مجھے تنہا نہ چھوڑ کہ تو بہترین وارث ہے۔
۲۔ حسین بن موسی بن جعفرؑنے اپنے عظیم آباء و اجداد سے روایت کی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں لوگوں کے درمیان جاؤں اور اونچی آواز سے اعلان کروں: خدا کی لعنت ہو اس پر جو اپنے مزدور کو اجرت دینے میں ظلم کرے، خدا کی لعنت ہو اس پر جو کسی ایسے شخص سے محبت کرے جو اس کا حقیقی مولا نہیں ہے۔ خدا کی لعنت ہو اس شخص پر جو اپنے والدین کو برا بھلا کہے۔ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی اور وہ جملے لوگوں سے کہے۔ عمر بن خطاب نے مجھ سے کہا: کیا ان جملوں کی کوئی خاص تفسیر ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔
پھر وہ اصحاب پیغمبر کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر آپؐ کے پاس آیا۔ عمر نے کہا: یا رسول اللہ! کیا علی کے بیان کردہ جملوں کی کوئی تفسیر ہے؟
انہوں نے فرمایا: ہاں، میں نے انہیں حکم دیا ہے کہ بلند آواز سے اعلان کریں: خدا کی لعنت ہو اس شخص پر جو اپنے مزدور کو اجرت دینے میں ظلم کرے اور خدا نے اس بارے میں فرمایا ہے: کہہ دو کہ میں تم سے اپنی رسالت کے لیے کوئی اجر نہیں مانگتا ہوں سوائے اپنے اقربا کی محبت کے،پس جو شخص بھی میرے اوپر ظلم کرے گا اس پر خدا کی لعنت ہے اور میں نے انہیں حکم دیا کہ کہیں: خدا کی لعنت ہو اس پر جو اپنے حقیقی اولیا کے علاوہ کسی دوسرے سے محبت کرے اور خدا فرماتا ہے: پیغمبر اکرمﷺ مؤمنین کی نسبت خود ان سے زیادہ حق دار ہیں۔ پس جس کا میں مولا ہوں، علی اس کے مولا ہیں۔ لہٰذا ہر اس شخص پر خدا کی لعنت ہو جو علی اور ان کی اولاد کے علاوہ کسی اور کو اپنا مولا اور رہنما بنائے۔ نیز میں نے انہیں یہ بھی حکم دیا کہ کہیں: اس شخص پر خدا کی لعنت ہو جو اپنے والدین کو برا بھلا کہے۔ میں خدا اور آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اور علی دونوں مؤمنین کے باپ ہیں اور خدا کی لعنت ہو اس پر جو ہم میں سے کسی کو برا بھلا کہے۔
ان الفاظ کے بعد جب وہ گروہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت سے چلا گیا تو عمرنے کہا: اے محمد کے ساتھیو! پیغمبر نے کبھی بھی نہ غدیر خم میں اور نہ ہی کسی اور مقام پر علی کی ولایت پر یوں تاکید نہیں فرمائی جیسے آج کی ہے۔[10]
۴۔۲۔ فقہی احادیث
حسین بن موسیٰؑ نے دو فقہی حدیثیں نقل کی ہیں کہ جن میں نمازجمعہ کی صحیح قرائت اور خاص حالات میں جلدی غسل کرنے کے احکام بیان ہوئے ہیں کہ ان میں سے یہاں پر ایک حدیث نقل کی جارہی ہے:
۱۔ حسین بن موسیٰؑ اپنی والدہ اور موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی بیٹی ام احمد سے روایت کرتے ہیں:
ہم ابا الحسن علیہ السلام کے ساتھ بغداد کی جانب جاتے ہوئے ایک صحرا سے گزر رہےتھے( راستے میں تھے)۔ امام نے جمعرات کو فرمایا: آج جمعہ کی نیت سے غسل کر لیں کیونکہ کل پانی بہت کم ہوگا ۔ ہم نے جمعرات کو جمعہ کے دن کی نیت سے غسل کیا۔[11]
۴۔۳۔اخلاقی احادیث
حسین بن موسیٰؑ ایک ایسی حدیث کے راوی ہیں جو مشکلات اور پریشان کن حالات میں اپنے بندوں کی حالت پر رب العالمین کی مہربانی اور شفقت کی نشاندہی کرتی ہے۔ جہاں مہربان پرودگار، کاتب فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ مصیبت میں بندوں کے نا مناسب یا ناشکری پر مبنی رویے اور الفاظ کو ثبت و ضبط نہ کریں۔
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن موسیٰ بن جعفر نقل کرتے ہیں: میرے دو چچا علی بن موسیٰؑ اور حسین بن موسیٰؑ اپنے والد موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے اور وہ اپنے اجداد سے اور وہ امام علی علیہ السلام سے اور وہ نبی اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: خدائے عزوجل نے نگران فرشتوں پر وحی نازل کی کہ جب میرا مؤمن بندہ بے چین ہو تو اس کا کوئی عمل نہ لکھو۔[12]
وہ امیر المؤمنین علیہ السلام سے بھی ایک خوبصورت روایت نقل کرتے ہیں کہ جس
میں امام علی علیہ السلام نے مؤمنین کے بعض حالات کی وضاحت کرتے ہوئے انہیں کچھ نصیحتیں کی ہیں:
حسین بن موسی اپنے والد موسی بن جعفر علیہ السلام سے اور وہ اپنے اجداد سے اور وہ امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ایک مؤمن ہمیشہ، صبح وشام ، خوف و ڈر کی حالت میں ہوتا ہے، خواہ وہ نیک انسان ہی کیوں نہ ہو کیونکہ وہ اپنے آپ کو دو چیزوں کے درمیان دیکھتا ہے: وہ زندگی اور وقت جو گزر چکا ہے کہ جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ خدا اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ (کیا وہ اس کے اعمال کو قبول کرے گا اور اس کے گناہوں کو معاف کردے گا؟ ) اور وہ عمر جو باقی رہ گئی ہے اور وہ نہیں جانتا کہ اسے کیسے اچھے یا برے حادثات کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ ہلاک کردینے والے اسباب کے سامنے کیا کرے گا؟ لہذا اے لوگو! اچھی بات کرو تاکہ تم اس سے پہچانے جاؤ اور اس پر عمل کرو تاکہ تم اس کے اہل میں شمار ہو جاؤ۔ صلہ رحم کرو حتی اگر دوسروں نے تمہارے ساتھ تعلق منقطع کردئے ہوں اور جس نے تمہیں منظور کیا ہے، اس کی طرف مہربانی کے ساتھ لوٹ جاؤ، اور امانت اس کے مالک کو واپس لوٹادو اور جس نے تم سے عہد کیا ہے، اس کے ساتھ عہد پر عمل کرو اور جب کوئی فیصلہ کرتے ہو تو عدالت کو اختیار کرو۔[13]
امام رضا علیہ السلام کے بھائی ایک اور روایت کے بھی راوی ہیں کہ جس میں امام علی علیہ السلام کے والد گرامی حضرت ابو طالبؑ، پیغمبر اکرم ﷺ کی اخلاقی خصوصیات کو بیان کرتے ہیں۔
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم نے اپنے والد کے چچا ،حسین بن موسیٰؑ سے اور انہوں نے اپنے اجداد سے اور انہوں نے امام علیؑ سے اور انہوں نے حضرت ابو طالبؑ سے نقل کیا ہے: خدا کی قسم، میرے بھائی کے بیٹے محمد سچے تھے۔ میں نے ان سے کہا: اے محمد!
آپ کو کس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: صلہ رحم، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کے لیے۔[14]
۴۔۴۔صحت
حسین بن موسیٰؑ ایک روایت میں صحت کے بارے میں اپنے والد کی ایک نصیحت کے بارے میں فرماتے ہیں:
ایک دن جب میرے والد موسیٰ بن جعفر علیہ السلام حمام سے نکل رہے تھے کہ زبیر کی اولاد میں سے کیند نامی ایک شخص ان سے ملا، جس کے ہاتھ میں مہندی لگی ہوئی تھی۔ امام نے اس سے پوچھا: تمہارے ہاتھ پر کس چیز کا نشان ہے؟ اس نے کہا: مہندی کا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد کہ جو اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم شخص تھے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نےاپنے جد سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص حمام میں داخل ہو، وہ پہلے نورہ لگائے اور پھر خود کو سر سے لے کر پاؤں کے تلوے تک مہندی لگائے۔ یہ کام اگلی دفعہ نورہ استعمال کرنے تک انسان کو جنون، جذام، برص اور جلد پر خارش کی بیماری سے محفوظ رکھتا ہے۔[15]
۶۔ حرم کی مختصر تاریخ
تاریخی شواہد بشمول مقبرہ امام زادہ حسین بن موسیٰ کاظمؑ کی تاریخی عمارت پر ۴۹۴ ہجری قمری (پانچویں صدی کے آخری سال) سے موجود تختی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ قابل تعظیم امام زادے صدیوں سے صاحب مقبرہ اور بارگاہ تھے۔
اسی طرح سے اس بہترین مکان کی جانب حضرت امام رضا علیہ السلام کی خاص توجہ کرنے کے بارے میں بھی کچھ بیانات نقل ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے اپنے بھائی کے مقبرے کو آباد کرنے کے لیے خاص توجہ دی اور وصیت فرمائی ہے کہ جسے مرزا علی خان نائینی کہ جن کا لقب صفا السلطانیہ تھا، نے کتاب “گزارش کویر” یا “تحفہ الفقراء” میں میں درج کیا ہے۔
وہ امام زادہ حسین بن موسی کاظمؑ کے حالات کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے ذکر کرتے ہیں: شیخ علی شیبانیؒ جو کہ عظیم علما میں سے تھے، اپنے وطن سے خانہ کعبہ کی زیارت کے ارادے سے نکلے، جب وہ طبس پہنچے تو وہ رات کو عالم واقع میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئے۔ امامؑ نے ان سے فرمایا: جو رقم آپ نے خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے مہیا کی ہے وہ شہزادہ حسینؑ کے مقبرے کی تعمیر پر خرچ کر دو کہ اللہ کی بارگاہ میں وہ حج کی جگہ پر قبول ہوجائے گی۔ اسے مدفن ( قبر) کی نشانی بھی بتائی۔ انہوں نے عرض کی: میں ایک اجنبی آدمی ہوں اوراحتمال ہے کہ میں اس کام کو انجام نہیں دے پاؤں گا۔ امامؑ نے فرمایا: ہم نے شہر کے گورنر کو بھی تمہاری مدد کرنے کی سفارش کر دی ہے۔ شیخ نیند سے اٹھے۔ جو پتہ امامؑ نے انہیں بتایا تھا اسے درج کیا۔ وہ گورنر کے گھر کی جانب گئے کہ جو ایک ازبکی خان تھا۔ دوسری طرف عالمِ خواب میں گورنر کو مدد کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور وہ ان کےآنے کا انتظار کررہا تھا۔ اسی اثناء میں شیخؒ داخل ہوئے اور واقعہ کی تفصیل بیان کی۔ گورنر نے قبول کرتے ہوئے بطورِ نشانی اپنی انگلی آنکھوں پر رکھی(سرآنکھوں پر)؛ کام کے لیے مزدوروں کو تیار کیا اور انہوں نے اس معین مقام کو کھودا جس کی حضرت رضا علیہ السلام نے نشانی بتائی تھی۔ ایک جوان کو پایا کہ جس کا قد درمیانہ، رنگ گندمی اور اس کی دائیں ابرو کے کونے پر ایک تل تھا۔ شیخ فوراً سجدہ ریز ہوئے، خدا کا شکر ادا کیا، وہ رقم مقبرے کی مرمت کے لیے خرچ کی اور و ہاں سے کچھ زمینیں خرید کر اس مقبرے کے لیے وقف کر دیں، اس کے بعد دوسرے لوگوں نے آہستہ آہستہ مزار کے سامنے ایک بڑا سا گنبد بنایا اور اسے وسیع و عظیم الشان ایوانوں اور محرابوں پر مشتمل ایک صحن بناکر مکمل کیا۔
کتاب “طرایق الحقایق” میں بھی، اس مقبرے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کے مؤلف لکھتے ہیں: وہاں (طبس) سے نصف فرسخ کے فاصلے پر سلطان حسین نامی ایک امام زادہ ہیں ، ان سے متعلق عمارت ، مقبرہ اور کچھ موقوفہ چیزیں ہیں۔ پرانا شہر انہی امام زادہ کے اطراف میں ہے۔[16]
امام زادہ حسین بن موسیٰؑ کا مقبرہ ایک تاریخی عمارت ہے کہ جسے ۱۳۸۱ میں ایران کی ایک یادگار کے طور پر رجسٹریشن نمبر 337 کے تحت رجسٹرڈ کیا گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے ۱۳۵۷ میں طبس کے تباہ کن زلزلے میں یہ عمارت تباہ ہوگئی تھی۔
۱۳۷۳ میں، آستان قدس رضوی کے سرپرست کی درخواست پر بڑی سرعت سے اس کی تعمیر نو کی گئی اور امام زادہ حسین بن موسیؑ کے منابع اورموقوفات کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے رہبر معظم(آیت اللہ العظمی آقا خامنہ ای) کی منظوری سے اس مقدس مقام کی سرپرستی آستان قدس رضوی کو سونپ دی گئی۔
۷۔ صاحب کرامات
جناب حسین بن موسی الکاظمؑ کا نورانی مقبرہ ایک طویل عرصے سے ان کےمجاوروں اور صحرا کے مسافروں کے لیے آمد و رفت کا مقام رہا ہے۔ لوگ اپنی حاجتیں اور اپنے دل کے راز ان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں اور انہیں اپنے اور ان کے بھائی اور والد کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دیتے ہیں تاکہ وہ خدا کے حضور ان کی شفاعت کریں اور ان کی دنیا و آخرت کی پریشانیوں کی گرہ کشائی کریں۔
حسین بن موسیٰؑ کی کرامات اور عنایات ان کی بارگاہ کے زائرین و مجاورین کے شامل حال ہوتی ہیں اور بہت سے لوگ اپنی حاجتیں پاتے ہیں اور ان کی زیارت سے اپنے روشن و منور دل کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں۔
امام زادہ حسین بن موسی الکاظمؑ کی اپنے زائرین کی جانب توجہ اور عنایات کی چند مثالیں:
۶۔۱۔ جوان لڑکی کا چہرے پر دھبوں سے شفا پانا
والدین اپنی جوان بیٹی کے خوبصورت چہرے پر داغ دھبے دیکھتے ہی بہت جلد اس کا علاج کرنے کے درپے ہوئے۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق وہ ایک ایسی نایاب جلدی بیماری تھی کہ جس کا علاج کرنے کے لیے طویل مدت اور لمبا عرصہ درکار تھا۔ انہوں نے کہا تھا: لڑکی کے چہرے سے داغ دھبے دور کرنے کے لیے کم از کم چار سال کا عرصہ لگ سکتاہیں۔ جب بھی ماں باپ اپنی بیٹی کے خوبصورت چہرے کی جانب دیکھتے تو ان کا دل بہت تنگ ہوجاتا اور وہ غم اور پریشانی کی حالت میں اس کا جلدی علاج کرنے اور صحت یاب ہونے کا راستہ تلاش کرتے۔
وہ اپنی خوبصورت ضمیر کی مالک بیٹی کے کہنے پر اربعین کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے اور انہوں نے راستے میں مدفون تمام امام زادوں اور اولیاءاللہ سے توسل کیا، ہرجگہ منت مانی اور بیٹی کے لیے شفا طلب کی۔ لڑکی کی والدہ نے طبس شہر سے گزرتے ہوئے امام زادہ حسین بن موسیؑ سے بھی اپنی حاجب طلب کی تھی اور منت مانی تھی؛ لیکن اس طویل اور پر نور سفر میں بظاہر والدین کی حاجت پوری نہیں ہوئی تھی۔
وہ دل شکستہ ماں کہتی ہے: میں پیغمبر اکرمﷺ اور امام صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے دن بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لئے صحرا میں لے گئی تھی، میں نے اسی حال میں آسمان کی جانب رخ کیا اور خدا کی بارگاہ میں التجا کی، اگر میری بیٹی صحت یاب ہوجائے تو میں ایامِ فاطمیہ میں حضرت عباسؑ کا دسترخوان بچھاؤں گی اور ایک گوسفند بھی مسجد امام صادق علیہ السلام میں ہدیہ کروں گی۔ لیکن روح کی گہرائیوں سے کی گئی ماں کی یہ دعائیں اور مخلصانہ منتیں حتیٰ کہ 28 صفر کے دن امام رضا علیہ السلام کے حرم میں کیے گئے دل سوز توسلات کا بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ تقدیر میں یہ تھا کہ یہ حاجت کسی اور وقت کسی دوسرے کے ہاتھوں سے پوری ہو۔
علاج کے لیے خاندان کی دوڑ دھوپ انہیں روایتی طب(دیسی علاج) کی طرف لے گئی، انہوں نے بڑی مشکل سے تہران میں اس شعبے کے ایک نامور معالج سے ملاقات کا وقت لیا اور ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔
والد نے اس سفر کے لیے چھوٹے راستے کو چنا کہ جو طبس شہر کے قریب سے گزرتا تھا لیکن طبس شہر میں داخل نہیں ہوتا تھا۔ والدہ نے رکنے اور امام زادہ کی زیارت کے لیے ایک لفظ بھی نہیں کہا، لیکن جب وہ طبس کے قریب سے گزر رہے تھے تو اس نے شکستہ دل کے ساتھ حرم کے گنبد، مناروں اور اپنی بیٹی کے پاکیزہ چہرے پر نگاہ کی اور مایوسی اور پریشانی کی حالت میں جناب حسین بن موسیٰ کاظمؑ کو ان کی جوانی، ماں کی ٹوٹی ہوئی پسلیوں اور امام حسین علیہ السلام کے جوان بیٹے علی اکبر علیہ السلام کی قسم دی کہ وہ ان کی مدد کریں۔
دل کی گہرائی سے توسل، اندرونی زمزمہ اور جوان بیٹی کے مستقبل کے لیے مادرانہ پریشانیوں کے ساتھ ساتھ ماں کی رنجیدہ اور آنسو بھری نگاہیں کبھی اپنی بیٹی کے چہرے اورکبھی اس گنبد پر پڑ رہی تھیں جو لحظہ بہ لحظہ نگاہوں سے دور تر ہوتا جا رہا تھا۔
اسی لمحے وہ لڑکی اس چھوٹے سے آئینے میں دیکھتی ہے جو اس کے ہاتھ میں تھا، وہ خوشی سے اپنی ماں کو آواز دیتی ہے کہ اماں دیکھیں، اس کے چہرے پر کوئی داغ دھبہ نہیں ہے۔
وہ سب خوش حال تھے، لیکن انہوں نےاپنا سفر جاری رکھا۔ جب وہ اپنی منزل تک پہنچے، معالج(حکیم) نے لڑکی کا بغور معائنہ کیا اور ڈاکٹر نےبھی بتایا کہ اس لڑکی کو کسی قسم کی کوئی جلدی بیماری نہیں ہے اور وہ مکمل طور پر صحیح و سالم اورتندرست ہے۔
۶۔۲۔ شدید ڈپریشن کے مریض کا شفایاب ہونا
ایک جوان اپنی ماں، بھائی اور بہن کے انتقال کے بعد شدید ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ یزد کے نامور ڈاکٹروں سے اپنا علاج کرانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن کئی مہینوں تک سخت قسم کی دوائیاں کھانے کے باوجود وہ ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر بھی اسے مایوس کرتے ہوئے کہتے کہ میڈیکل میں اس بیماری کا طریقہ علاج یہی ہے کہ جو ہو رہا ہے، آپ کو اس کے علاوہ کسی اور چیز کی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے۔ ایک دن وہ جوان اور اس کے والد امام زادہ حسین بن موسیٰ کاظمؑ کی زیارت کے لیے آتے ہیں ، ضریح مطہر کوپکڑتے ہیں، شکستہ دل اور بے بسی کے عالم میں ان سے متوسل ہوتے ہیں اور ان سے اپنی حاجت طلب کرتے ہیں۔ وہ جوان اچانک متوجہ ہوتا ہے کہ سبز لباس میں ملبوس ایک شخص اس کے پاس کھڑے ہیں کہ جو اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس سے کہتے ہیں: تمہاری مشکل حل ہو گئی ہے۔
۶۔۳۔ بیمار بچے کی ماں کے درد دل پر توجہ دینا
ایک چھوٹی بچی بنام مہرسا کو بولنے میں مشکل اور چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا تھا، اس کی والدہ خانم سمیرا کہتی ہیں: میری چھوٹی بیٹی بیمار ہونے کی وجہ سے کچھ دن طبس کے ہسپتال میں داخل تھی۔ کمرے کی کھڑکی سے حسین بن موسیٰ کاظمؑ کے حرم کا گنبد اور منارے نظر آتے تھے۔
میں وقتاً فوقتاً امام زادہ سے باتیں کرتی اور انہیں اپنا دکھ و درد سناتی اور ان کی خدمت میں عرض کرتے ہوئے کہتی، افسوس ہے کہ ہمارے لیے آپ کے بھائی امام رضا علیہ السلام کی زیارت کرنا ممکن نہیں ہے لیکن میرا دل بہت چاہتا ہے کہ میں آپ کی پا بوسی کے لیے حاضری دوں اور آپ کی خدمت میں سلام پیش کروں۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ رمضان المبارک کی ۱۲ تاریخ تھی، گھر میں ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام کے ساتھ قرآن کی تلاوت کی توفیق حاصل ہوئی۔
اچانک مجھے ہسپتال میں گزرے ہوئے ایام اور امام زادے سے زیارت کی درخواست یاد آئی، میں نے شکستہ دل کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کی: کیا آپ بھی ہمیں بھول گئے ہیں؟ کیا کسی دن کوئی ایسا موقع فراہم نہیں ہو سکتا ہے کہ میں اپنی بیٹی کے ہمراہ آپ کی زیارت کے لیے آؤں؟
اسی لمحے گھر کے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور ایک جاننے والے شخص نے ہمیں امام زادہ کے حرم میں افطار کرنے کی دعوت دی۔ لہذا اسی رات ہمیں امام زادہ حسین بن موسیٰ کاظمؑ کی زیارت کی سعادت اور ان کے کریمانہ دسترخوان کی دعوت نصیب ہوئی۔
وہ جوان ماں اپنی سادہ دلی کی بنا پر امام زادہ کی جانب سے اس دعوت کو ایک نشانی اور درخواست پر توجہ خیال کرتے ہوئے، اس دن کو ایک یادگار کے طور پر خوبصورت انداز میں لکھتے ہوئے بیان کرتی ہے کہ آج کے بعد میں اپنی بیٹی کے لیے شفا صرف اور صرف امامزادہ حسین بن موسی الکاظمؑ سے طلب کروں گی۔
۱۔ فلاحی کام
حضرت حسین بن موسی الکاظمؑ کا مزار طبس شہر کے شمال مغرب میں(ایک لاکھ انہترہزارآٹھ سو ساٹھ (169860) مربع میٹر پر واقع ہے ،اس کے صحن اور مقدس بارگاہ کے چاروں طرف ایک سو پچاس(۱۵۰) کمرے ہیں اور بڑے دروازوں کے اوپر مہمان خانے بنائے گئے ہیں۔ یہ جگہ زائرین کے لیے بہترین قیام گاہ ہے۔
حضرت حسین بن موسیؑ کی بارگاہ اور صحن کے چاروں طرف شہدا کی پاک ومطہر قبریں، خوبصورت سقاخانے، مختلف درخت، پودے اور چھتیس میٹر اونچے اور کشیدہ قامت چار منارے ہیں کہ جنہوں نے اس عظیم ثقافتی مرکز کی شان، عظمت اور خوبصورتی کو چار چاند لگا رکھے ہیں۔ اب تک اس ثقافتی مرکز میں تیرہ ہزار (13000)مربع میٹر سے زیادہ زمین زیارت، عبادت اور رہائش کے لیے بنائی گئی ہے اور باسٹھ ہزار(62300)مربع میٹر رقبہ پھولوں، پودوں، عام درختوں، پھل داردرختوں اور کھجوروں کے درختوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے؛بائیس(۲۲) عدد خوبصورت حوض، ستاسی عدد(۸۷)بیت الخلا اور انیس ہزار(19000) مربع میٹر سے زائد رقبہ پر پتھر لگا کر اسے زائرین کی آمدورفت کے لیے تیار کیا ہے۔ یہ سارے قابل قدر اقدامات آستان قدس رضوی کی جانب سے زائرین کی فلاح وبہبود اور سہولت کے لیے انجام پائے ہیں۔
آستان قدس رضوی کے نمایاں اور گرانقدر کام، نیز طبس شہر کا جغرافیائی محل وقوع اور ایران اسلامی کے مرکزی علاقوں سے حضرت علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے زائرین کے لیے اس کا راستے میں واقع ہونا اس بات کا سبب ہے کہ شہر طبس، میقات الرضا ، صوبہ جنوبی خراسان کا پہلا اور ملک کا چوتھا زیارتی شہر ہے کہ جو ہر سال تقریباً ساٹھ لاکھ(۶۰۰۰۰۰۰) زائرین کی میزبانی کرتا ہے۔
باورچی خانہ: دو باورچی خانے ابلے پانی اور کھانا پکانے کے مکمل سامان کے ساتھ، چوبیس گھنٹے اور مفت زائرین کی خدمت کے لیے دستیاب ہیں۔
بچوں کے لیے کھیلنے کا پارک:حرم کے مشرقی جانب ہزار (1000)مربع میٹر کے رقبے پر ایک خاص قسم کا میٹرس بچھایا گیا ہے اور بچوں کے لیے خوشی کے لمحات فراہم کرنے کے لیے کھیل کود کے کچھ وسائل و آلات نصب کیے گئے ہیں ۔
پارکنگ: پارکنگ نمبر۱اور۲ کہ جو حرم کے مشرقی اور مغربی جانب میں گاڑیاں پارک کرنے کے لیے مخصوص کی گئی ہیں اور یہاں پر ۲۴ گھنٹے کھڑی کی گئی گاڑیوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔
عارضی رہائش گاہ: حرم مقدس میں بیس ہزار(۲۰۰۰۰) افراد کے لیے عارضی قیام کرنے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔
حضرت حسین بن موسی الکاظمؑ پارک: حرم مقدس کے مشرق کی جانب سے500 میٹر کے فاصلے پر حضرت آیت اللہ واعظ طبسی بلیوارڈ کے کنارے پر 39/ ایکٹررقبے پرمختصر مدت کے لیے رہائش گاہ، تجارتی مرکز، بچوں کے لیے کھیل کود کا سامان اور بیت الخلا کی سہولت موجود ہے۔
حضرت فاطمہ معصومہؑ کا چائخانہ: حرم مطہر کے صحن میں ایک خوبصورت اور بہترین چائخانہ بنایا گیا ہے جہاں پر بابرکت چائے سے زائرین کی پذیرائی کی جاتی ہے۔
۔ حرم مبارک کے دیگر فلاحی کاموں میں سے ایک رضوان غسل خانہ ہےجو ۲۴ گھنٹے دستیاب ہے، علاوہ ازیں نذر کیے گئے جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے ذبح خانہ بھی موجود ہے۔
۲۔ ثقافتی کام
لائبریری: یہ لائبریری اسی ہزار(۸۰۰۰۰) سے زیادہ مطبوعہ اور(۱۰۰۰۰۰۰۰) ایک کروڑ غیر مطبوعہ منابع پر مشتمل ہے۔ اس کے دو حصے ہیں۔ ایک خواہران اور دوسرا برادران کے لیے ہے۔
۔ ثقافتی مصنوعات کی نمائش گاہ اوردکان: یہ کمرہ نمبر میں۱۲۴ باب الغدیر اور باب الشہدا کے گیٹ پر واقع ہے۔
۔ میقات الرضا کانفرنسز ہال (ثقافتی کاموں کے لیے): اس ہال میں تین سو پچاس(۳۵۰) افراد کی گنجائش ہے، اس میں کانفرنسز، مذاکرے، مذہبی، دینی اور علمی اجلاس منعقد ہوتے ہیں نیز مختلف قسم کی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔
مرکز قرآن و معارف میقات الرضا: اس کا کام فیس ٹو فیس اور ورچوئل(آن لائن) صورت میں مختلف قرآنی اور تعلیمی کورسز منعقد کرنا ہے۔
بچوں اور نوجوانوں کا مرکز:
اس مرکز کے مندرجہ ذیل تربیتی پروگرامز ہیں:
۔ فرشتوں کا باغ: بچوں کےبالغ ہونےکی تقریبات منعقد ہونے کی جگہ
بچوں کا ہال“مہربان چچا”: نسلِ ظہور کے اجتماعات کی جگہ
۔ آزادانہ سوچ بچار کا مرکز: گفتگو کیفے
سیرو سیاحت: ایک اچھا دن، ایک اچھا احساس
۔ ملکوتی مہمان نوازی
۔ میقات الرضا مشاورتی مرکز:
اس مرکز کی مندرجہ ذیل سرگرمیاں ہیں:
مشاورت(counseling) کا تقاضا کرنے والوں کے لیے سہولت فراہم کرنا،بچوں اور نوجوانوں کی تربیت؛ شادی اور خاندان کے استحکام سے متعلق مختلف کورسز کا انعقاد کرنا۔
۔ میقات الرضا خواتین کا مرکز: اس مرکز کا کام خواتین کے لیے خصوصی ثقافتی مواقع فراہم کرنا اور ایسے پروگرامز منعقد کرنا ہے کہ جن کا محور خواتین ہوں۔
۱۔ اختیار معرفہ الرجال: ج۲،ص۷۲۹
[2] ۔ حمیری، عبدالله بن جعفر، قرب الاسناد، قم، ایران، موسسه آل البیت لاحیاء التراث، 1371، صفحه 378
[3] ۔ خصیبی، حسین بن حمدان، الھدایہ الکبری، بیروت، موسسہ البلاغ، ۱۴۱۹ق: ص ۷۷ تا۸۳
[4]۔ خصیبی، حسین بن حمدان، الھدایہ الکبری، بیروت، موسسہ البلاغ، ۱۴۱۹ق: ص ۸۳ تا ۸۵
[5] ۔ بحار الأنوار الجامعه لدرر أخبار الأئمه الأطهار علیهم السلام : ج ۶۴ صفحه۲۶۰ ؛ علل الشرایع: ج۲ , صفحه۵۶۰
[6]۔ ابن طاووس، علی بن موسی، دار الذخائر للمطبوعات، قم، صفحہ ۲۳۶
[7]۔ اربلی، علی ابن عیسیٰ، و آل کوثر، علی۔ 1433 ہجری۔ کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ علیہم السلام، المجمع العالمی لاہل البیت : جلد 3 صفحہ 432
[8] ۔ اربلی، علی ابن عیسیٰ، و آل کوثر، علی؛ 1433 ہجری۔ کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ علیہم السلام: المجمع العالمی لاہل البیت: جلد3 صفحہ ۴۳۲
[9] ۔۔ محمدی ری شہری، محمد، طباطبائی، محمد کاظم، طباطبائی نژاد، محمود، و مرکزبحوث دارالحدیث۔ قسم احیاء دارالتراث۔ 1425ق۔ موسوعه الإمام علی بن أبیطالب(ع) فی الکتاب و السنه و التاریخ. قم: مؤسسه علمی فرهنگی دارالحدیث. سازمان چاپ و نشر، ج1، ص294
[10] ۔ مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، مسترحمی، هدایتالله، غفاری،علیاکبر، بهبودی، محمدباقر، مصباح یزدی، محمد تقی، محمودی، محمدباقر،خرسان، محمدمهدی، و دیگران. ۱۳۶۸–۱۴۰۳. بحار الأنوار. ۱۱۱ ج. بیروت -لبنان: دار إحیاء التراث العربی. جلد 22، صفحه 490 به نقل از الطرف صفحه 37و 38
[11] ۔ شیخ صدوق محمد بن علی، من لایحضره الفقیه، جامعه مدرسین حوزه علمیه قم،1413 ق، جلد 1 صفحه 111
[12] ۔ طوسی، محمد بن حسین، قم: موسسه البعثه، 1414ق، ص571
[13] ۔ ترجمہ بہار الانوار، جلد 1، صفحہ 392، ناشر: گنجینہ تہران
[14]۔ مرعشی، شهابالدین، مرادی، محمد، محمودی،محمدجواد، صحتی سردرودی، محمد، مرعشی، محمود، اسفندیاری، محمد، جدیدی نژاد،محمد رضا، و دیگران. ۱۴۳۰. موسوعه الامامه فی نصوص أهل السنه. ۲۰ ج. قم – ایران:صحیفه خرد. جلد 6 صفحه 127 به نقل از الاصابه، ابن حجر جلد 7 صفحه 203
[15] ۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، مؤسسه علمی فرهنگی دار الحدیث. سازمان چاپ و نشر، جلد 13 صفحه 187
[16] ۔ مجموعه مقالات برگزیده اولین همایش پژوهشی بزرگداشت شخصیت حسین بن موسی الکاظم علیه السلام، تهران، فکر بکر، 1393، صفحه 258